Thursday | 28 March 2024 | 17 Ramadhan 1445

Fatwa Answer

Question ID: 44 Category: Permissible and Impermissible
Moving to Another Country for Better Opportunities

Assalamualaikum Warahmatullah

I moved from Pakistan to America in the year 2002. Is it permissible to live in America with my family and kids when there is an option for me go back and live in Pakistan? My question is in light of all the difficulties in performing ibadah in a non-Muslim country, the general societal situation as well as the overall difference in the way of life between the two countries.

JazakAllah Khair

Assalamualaikum Warahmatullah

It is not prohibited in the Islamic Shari'ah to relocate in order to gain better opportunities for work or worldly education. However, if a person has the necessary financial means available in his country of residence to lead a life similar to the living standard of the people in his city and he still choses to relocate to another country just to elevate his living standard, be more prosperous and to search for a luxurious lifestyle, then this action is not free of karahiyah (disliking). This is due to the fact that in such relocation putting one's self, one's deen, their values and etiquettes in danger (of corruption) is imperative. Additionally, it has been observed that when people relocate to other places just in search of luxury and comfort, their religious values and zeal becomes weak and such individuals lose the fight against the corruptive efforts of kufr (disbelief) very quickly. This is the reason why it has been mentioned in the hadith of Rasulullah Sallallaho Alyhi Wasallam to refrain from living amongst the mushrikin without a dire need or necessity. In addition, if one’s deen is in danger i.e. it has become extremely difficult to remain firm on the teachings of Islam in a certain country then living in that country is considered impermissible. It is mandatory in that situation to move to a country where one’s deen, life and wealth is protected.

(۱) ما فی ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {لا یتخذ المؤمنون الکافرین أولیآء من دون المؤمنین ، ومن یفعل ذلک فلیس من اللہ فی شيء إلا أن تتقوا منہم تُقٰۃ} ۔ (سورۃ آل عمران : ۲۸)ما فی ’’ روح المعانی ‘‘ : (من دون المؤمنین) أی متجاوزین المؤمنین إلی الکافرین استقلالاً أو اشتراکاً ۔ (۳/۱۹۴)ما فی ’’ السنن لأبي داود ‘‘ : عن سمرۃ بن جندب : أما بعد ! قال رسول اللہ ﷺ : ’’ من جامع المشرک وسکن معہ فإنہ مثلہ ‘‘۔ (ص؍۳۸۵، کتاب الجہاد ، باب في الإقامۃ لأرض الشرک)ما فی ’’ السنن لأبي داود ‘‘ : عن جریر بن عبد اللہ قال : بعث رسول اللہ ﷺ سریۃ إلی خثعم ، فاعـتـصم ناس مـنـہم بالسجود ، فأسـرع فـیـہم القـتل ، قال : فبلغ ذلک النبی ﷺ فأمر لہم ==بنصف العقل ، وقال : ’’ أنا برئ من کل مسلم یقیم بین أظہر المشرکین ‘‘ ۔ قالوا : یا رسول اللہ لم ؟ قال : ’’ لا تراء ی ناراہما ‘‘ ۔ (ص؍۳۵۵، کتاب الجہاد ، باب النہي عن قتل من اعتصم بالسجود، السنن للترمذی : ۱/۲۸۹، أبواب السیر ، باب ما جاء في کراہیۃ المقام بین أظہر المشرکین)ما فی ’’ عون المعبود شرح السنن لأبی داود ‘‘ : قال فی ’’ النہایۃ ‘‘ : أی یلزم المسلم ، ویجب علیہ أن یتباعد منزلہ عن منزل المشرک ۔ (ص؍۱۱۲۹)الحجۃ علی ما قلنا ۔

فقط واللہ اعلم بالصواب

Question ID: 44 Category: Permissible and Impermissible
دنیاوی فوائد کے لئے ہجرت

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

میں سال ۲۰۰۲ میں پاکستان سے امریکہ منتقل ہو گیا تھا۔ اب میں یہاں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ میں بیوی بچوں کے ساتھ رہنا جائز ہے جب کہ میرے پاس پاکستان میں رہنے کا موقع ہے؟ میرا سوال غیر مسلم ملک میں عبادتوں کو سرانجام دینے والی پریشانیوں، معاشرے کی بے انتہا خرابیوں اور دونوں ممالک میں زندگی گزارنے کے طریقے میں واضح فرق کی روشنی میں ہے۔

جزاک اللہ خیرا

 الجواب وباللہ التوفیق

کسب معاش کیلئے یا علوم وفنون حاصل کرنے کیلئے غیر ملک جانا شریعت میں منع نہیں ہے،البتہاگر کسی شخص کو اپنے ملک میں اس قدر معاشی وسائل حاصل ہیں، جس کے ذریعہ وہ اپنے شہر کے لوگوں کے معیار کے مطابق زندگی گذار سکتا ہے، لیکن محض معیار زندگی بلند کرنے اور خوشحالی اورعیش وعشرت کی زندگی گذارنے کی غرض سے، کسی غیر مسلم ملک کی طرف ہجرت کرتا ہے، تو ایسی ہجرت کراہت سے خالی بھی نہیں ہے، اس لئے کہ اس صورت میں اپنے آپ کو اور اپنی دینی واخلاقی حالت کو خطرہ میں ڈالنا لازم آتا ہے، کیوں کہ جو لوگ محض عیش وعشرت اور خوشحالی کی زندگی بسر کرنے کیلئے وہاں رہائش اختیار کرتے ہیں، مشاہدہ یہ ہے کہ ان میں دینی حمیت کمزور پڑ جاتی ہے، اوریہ لوگ کافرانہ محرکات کے سامنے بڑی تیزی سے پگھل جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف میں شدید ضرورت وتقاضے کے بغیر مشرکین کے ساتھ رہائش اختیار کرنے کی ممانعت آئی ہے ۔اور اگروہاں دین کا نقصان ہو اور دین پر باقی رہنا اانتہائی مشکل ہوگیا ہو تو پھراس ملک میں رہنا بھی جائز نہیں ہے ۔وہاں سے کسی اور جگہ جہاں دین،جان اور مال کی حفاظت ہوسکے منتقل ہونا ضروری ہوگا۔

(۱) ما فی ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {لا یتخذ المؤمنون الکافرین أولیآء من دون المؤمنین ، ومن یفعل ذلک فلیس من اللہ فی شيء إلا أن تتقوا منہم تُقٰۃ} ۔ (سورۃ آل عمران : ۲۸)ما فی ’’ روح المعانی ‘‘ : (من دون المؤمنین) أی متجاوزین المؤمنین إلی الکافرین استقلالاً أو اشتراکاً ۔ (۳/۱۹۴)ما فی ’’ السنن لأبي داود ‘‘ : عن سمرۃ بن جندب : أما بعد ! قال رسول اللہ ﷺ : ’’ من جامع المشرک وسکن معہ فإنہ مثلہ ‘‘۔ (ص؍۳۸۵، کتاب الجہاد ، باب في الإقامۃ لأرض الشرک)ما فی ’’ السنن لأبي داود ‘‘ : عن جریر بن عبد اللہ قال : بعث رسول اللہ ﷺ سریۃ إلی خثعم ، فاعـتـصم ناس مـنـہم بالسجود ، فأسـرع فـیـہم القـتل ، قال : فبلغ ذلک النبی ﷺ فأمر لہم ==بنصف العقل ، وقال : ’’ أنا برئ من کل مسلم یقیم بین أظہر المشرکین ‘‘ ۔ قالوا : یا رسول اللہ لم ؟ قال : ’’ لا تراء ی ناراہما ‘‘ ۔ (ص؍۳۵۵، کتاب الجہاد ، باب النہي عن قتل من اعتصم بالسجود، السنن للترمذی : ۱/۲۸۹، أبواب السیر ، باب ما جاء في کراہیۃ المقام بین أظہر المشرکین)ما فی ’’ عون المعبود شرح السنن لأبی داود ‘‘ : قال فی ’’ النہایۃ ‘‘ : أی یلزم المسلم ، ویجب علیہ أن یتباعد منزلہ عن منزل المشرک ۔ (ص؍۱۱۲۹)الحجۃ علی ما قلنا ۔

فقط واللہ اعلم بالصواب