Friday | 29 March 2024 | 18 Ramadhan 1445

Fatwa Answer

Question ID: 105 Category: Dealings and Transactions
Paying Bribe through Earned Interest

Assalamualaikum Warahmatullah 

Can we give the amount of money earned as interest as a bribe in the situation where giving a bribe is not avoidable at all, as it happens in our countries (India, Pakistan etc.)?

 الجواب وباللہ التوفیق

Taking or giving interest or bribes is considered impermissible and haram in Islam. The ahadith of Rasulullah Sallallaho Alyhi Wasallam have mentioned severe rebuke for the people who are involved in such transactions. If someone has money sourced through bribe or interest and they know about the owner of that money then it is mandatory upon them to return it to the owner. Otherwise, if the owner is not known then this money should be given to a needy or poor Muslim, without keeping an intention to get thawab (reward) in return. Therefore, one should try to refrain from these actions as much as possible. However, if the amount of taxes from the government is unbearable for an individual, then there is a provision of permissibility to pay the unbearable portion (and not the whole amount of tax) through the money earned as interest. Similarly, in the situations of dire need, where there is no other way other than paying a bribe, or if our basic rights are being taken away unjustly, then paying a bribe in this case will not be considered sinful, however paying the money earned as interest for the bribe will not be considered permissible.

Extracted from Kitabun-Nawazil: Kitabur-Riba: Sood kay Masarif (places where money earned as interest can be used)

قال اللّٰہ تعالیٰ: {اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} [البقرۃ، جزء آیت: ۲۷۵]عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا ومؤکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء۔ (صحیح مسلم ۲؍۷۲ رقم: ۱۵۹۸، سنن الترمذي ۱؍۲۲۹ رقم: ۱۲۰۶۔

۵)عن عبد اللہ بن عمرو، قال: لعن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم الراشي والمرتشي.(سنن أبي داود،ص: ۵۰۴،رقم الحدیث:۳۵۸۰، كتاب الأقضية، باب في كراهية الرشوة،

وأما إذا کان عند رجل مال خبیث، فإما إن ملکہ بعقد فاسد، أو حصل لہ بغیر عقد، ولا یمکنہ أن یردّہ إلی مالکہ، ویرید أن یدفع مظلمتہ عن نفسہ، فلیس لہ حیلۃ إلاَّ أن یدفعہ إلی الفقراء؛ لأنہ لو أنفق علی نفسہ فقد استحکم ما ارتکبہ من الفعل الحرام، ودخل تحت قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’ثم ذکر الرجل یطیل السفر أشعث أغبر یمد یدیہ إلی السماء یا ربّ یا ربّ، ومطعمہ حرام، وملبسہ حرام‘‘ الحدیث، أو أضاعہ واستہلکہ، فدخل تحت قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’نہی عن إضاعۃ المال‘‘۔ فیلزم علیہ أن یدفعہ إلی الفقراء، ولکن لا یرید بذٰلک الأجر والثواب، ولکن یرید دفع المعصیۃ عن نفسہ۔ (بذل المجہود، کتاب الطہارۃ / باب فرض الوضوء ۱؍۳۵۹-۳۶۰ مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي مظفرفور أعظم جراہ)لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع ۶؍۳۶۵ کراچی، ۹؍۵۵۳ زکریا)

وَمِنْهَا إذَا دَفَعَ الرِّشْوَةَ خَوْفًا عَلَى نَفْسِهِ أَوْ مَالِهِ فَهُوَ حَرَامٌ عَلَى الْآخِذِ غَيْرُ حَرَامٍ عَلَى الدَّافِعِ ، وَكَذَا إذَا طَمِعَ فِي مَالِهِ فَرَشَاهُ بِبَعْضِ الْمَالِ وَمِنْهَا إذَا دَفَعَ الرِّشْوَةَ لِيُسَوِّيَ أَمْرَهُ عِنْدَ السُّلْطَانِ حَلَّ لَهُ الدَّفْعُ وَلَا يَحِلُّ لِلْآخِذِ أَنْ يَأْخُذَ(البحر الرائق:کتاب القضاء:۱۷/۳۳۳)

إذَا دَفَعَ الرِّشْوَةَ لِدَفْعِ الْجَوْرِ عن نَفْسِهِ أو أَحَدٍ من أَهْلِ بَيْتِهِ لم يَأْثَمْ (ہندیہ:۴/۴۰۳)

فقط واللہ اعلم بالصواب

 

 

 

فقط واللہ اعلم بالصواب

Question ID: 105 Category: Dealings and Transactions
سود کے پیسے سے رشوت دینا

 

 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سود کی صورت میں حاصل کیا ہوا پیسہ کیا رشوت کے طور پر دیا جا سکتا ہے، ان جگہوں پر جہاں رشوت کے بغیر کام ہونا نا ممکن ہوتا ہو؟ جیسا کہ ہمارے ممالک میں اکثر دیکھنے میں آتا ہے (انڈیا و پاکستان وغیرہ میں)۔

 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

الجواب وباللہ التوفیق

اسلام میں سود اوررشوت دینا یا لینا دونوں ناجائز اور حرام ہیں ،اور احادیث میں ایسے لوگوں پر بڑی وعیدیں ناز،ل ہوئی ہیں،اوراگر کسی کے پاس ایسی رقم موجود ہوتو اگر مالک کا علم ہو تو اس رقم کو اسے لوٹانا اور اگر مالک کا علم نہ ہوتو بغیر ثواب کی نیت کے کسی مستحق اورغریب مسلمان کواس کا مالک بنا د یناضروری ہے، اس لئے حتی الامکان اس سے بچنا چاہئے، البتہ اگرسرکار کی جانب سے عائد کئے گئےٹیکس ادا کرنے کا تحمل نہ ہو پائے تو اس میں سے زائد ٹیکس کے بقدرسودی رقم دینے کی گنجائش ہے،ایسے ہی ضرروت کے وہ مواقع جہاں رشوت کے بغیر کوئی چارۂ کار نہ ہو،یا ہمارے جائز حق سے بھی ہمیں محروم رکھا جاتا ہو تو مجبوری میں ایسے مواقع پر رشوت دینے میں گناہ تو نہیں ہوگا لیکن سودی رقم کا ان جگہوں میں بطور رشوت دینا جائز نہیں ہے۔(مستفاد از کتاب النوازل:کتاب الربوا:سود کے مصارف)

قال اللّٰہ تعالیٰ: {اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} [البقرۃ، جزء آیت: ۲۷۵]عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا ومؤکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء۔ (صحیح مسلم ۲؍۷۲ رقم: ۱۵۹۸، سنن الترمذي ۱؍۲۲۹ رقم: ۱۲۰۶۔

۵)عن عبد اللہ بن عمرو، قال: لعن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم الراشي والمرتشي.(سنن أبي داود،ص: ۵۰۴،رقم الحدیث:۳۵۸۰، كتاب الأقضية، باب في كراهية الرشوة،

وأما إذا کان عند رجل مال خبیث، فإما إن ملکہ بعقد فاسد، أو حصل لہ بغیر عقد، ولا یمکنہ أن یردّہ إلی مالکہ، ویرید أن یدفع مظلمتہ عن نفسہ، فلیس لہ حیلۃ إلاَّ أن یدفعہ إلی الفقراء؛ لأنہ لو أنفق علی نفسہ فقد استحکم ما ارتکبہ من الفعل الحرام، ودخل تحت قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’ثم ذکر الرجل یطیل السفر أشعث أغبر یمد یدیہ إلی السماء یا ربّ یا ربّ، ومطعمہ حرام، وملبسہ حرام‘‘ الحدیث، أو أضاعہ واستہلکہ، فدخل تحت قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’نہی عن إضاعۃ المال‘‘۔ فیلزم علیہ أن یدفعہ إلی الفقراء، ولکن لا یرید بذٰلک الأجر والثواب، ولکن یرید دفع المعصیۃ عن نفسہ۔ (بذل المجہود، کتاب الطہارۃ / باب فرض الوضوء ۱؍۳۵۹-۳۶۰ مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي مظفرفور أعظم جراہ)لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع ۶؍۳۶۵ کراچی، ۹؍۵۵۳ زکریا)

وَمِنْهَا إذَا دَفَعَ الرِّشْوَةَ خَوْفًا عَلَى نَفْسِهِ أَوْ مَالِهِ فَهُوَ حَرَامٌ عَلَى الْآخِذِ غَيْرُ حَرَامٍ عَلَى الدَّافِعِ ، وَكَذَا إذَا طَمِعَ فِي مَالِهِ فَرَشَاهُ بِبَعْضِ الْمَالِ وَمِنْهَا إذَا دَفَعَ الرِّشْوَةَ لِيُسَوِّيَ أَمْرَهُ عِنْدَ السُّلْطَانِ حَلَّ لَهُ الدَّفْعُ وَلَا يَحِلُّ لِلْآخِذِ أَنْ يَأْخُذَ(البحر الرائق:کتاب القضاء:۱۷/۳۳۳)

إذَا دَفَعَ الرِّشْوَةَ لِدَفْعِ الْجَوْرِ عن نَفْسِهِ أو أَحَدٍ من أَهْلِ بَيْتِهِ لم يَأْثَمْ (ہندیہ:۴/۴۰۳)

فقط واللہ اعلم بالصواب