Thursday | 28 March 2024 | 17 Ramadhan 1445

Fatwa Answer

Question ID: 206 Category: Beliefs
Keeping the Belief that Allah Subhanahu Wa Ta'ala Can Lie

Assalamualaikum,

Can you kindly provide your view on the following issue, is it correct to have the belief that Allah Subhanahu Wa Ta'ala has the power to lie but that He would not (as per Darul Ifta Birmingham and the website Tafseer Raheemi - see below)?

Darul Ifta Birmingham:
http://daruliftabirmingham.co.uk/do-the-scholars-of-deoband-believe-that-allah-can-lie/

Tafseer Raheemi:
http://www.tafseer-raheemi.com/q630-do-ulemae-deoband-believe-that-allah-lies/

Thanks

الجواب و باللہ التوفیق

The issue mentioned in your question is a pure literary one, engaging the general public in such discussion is nothing but a strive to deceive them and to generate hatred and ill will in their hearts for ulamah-e-haq (the righteous ulamah kiram). Fundamentally, the issue described in the question is not a point of conflict, rather the actual matter is about the extension of the power of Allah Subhanahu Wa Ta'ala, but by distorting its real meanings and essence, a botched interpretation is spread among the general public, to spread dread, apprehension and hatred.

The real issue is whether Allah Subhanahu Wa Ta'ala can send the non-believers and the polytheists to Jannah or not. It is obvious that it is in the power of Allah that if He wishes to send them to Jannah then he can, but He will not do it because it is our belief that Allah Subhanahu Wa Ta'ala is true in His promise and He will not go against His promise, and no one else’s statement could be more truthful than that of Allah.

ومن اصدق من اللّٰہ قیلا

Allah is free of and above lying and even the suspicion of lying. One who associates lying with Him is a non-believer.

Now the question arises that when Allah Subhanahu Wa Ta'ala has the power to send some non-believer to Jannah then the possibility of Him going against His promise and the possibility of associating lying with Him arises. The Ulama then performed literary discussions on this topic and this issue remained under discussion among their predecessors too. The details of which are documented in books such as Sharah Maqasid, Sharah Mawaqif, Tafseer-e-Kabeer, Juhdul-Muqill and Al-Muhannad etc. Allamah Shami Rehmatullah 'Aleh also prepared a detailed discourse on it, and the predominant point of view is that Allah Subhanahu Wa Ta'ala holds the power of lying however He is free of and above it. Because it is mentioned in the Quran:

انَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ

Translation: Surely, Allah is powerful to do anything.

Therefore, lying is also under the power of Allah Subhanahu Wa Ta'ala, He is neither powerless nor incapable of it. If He would not have the power of it then He would be considered helpless (in only being capable of truth), and to be forced and being helpless is far away from the majesty of Allah Subhanahu Wa Ta'ala. In conclusion, it is one thing for an object to be bad and vile, while it is an entirely other thing for somoene to perform a vile act, the performance of a vile act is bad but to have the power to perform a vile act is not considered bad. Allah Subhanahu Wa Ta'ala surely possesses the power over it but neither it has occurred by him nor it ever will occur, as having power over an act doesn’t necessitate the performance of that act.

Please review some Arabic references for the details mentioned above:

من یعتقد ویتفوہ بانہ تعالیٰ یکذب فہو کافر ملعون قطعاً ومخالف الکتاب والسنۃ واجماع الامۃ

(فتاویٰ رشید یہ ص۲۰۸، کتاب العقائد)

ان اللہ منزہ من ان یتصف بصفۃ الکذب ، ولیست فی کلامہ شائبۃ الکذب أبدا کما قال اللہ تعالیٰ : ’’ومن اصدق من اللہ قیلا

( المہند علی لمفند : ۵۴ / دارالاشاعت)

إن أمثال ھذہ الأشیاء مقدور قطعاً لکنہ غیر جائز الوقوع عند أھل السنة والجماعة من الأشاعرة

(المھند علی المفند: ص۵۹)

إن اللہ تعالی منزّہ من أن یتصف بصفة الکذب ولیست في کلامہ شائبة الکذب أبدا کما قال اللہ تعالی: وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیْلاً
(المھند علی المفند: ص۵۵)

المنکرون لشمول قدرتہ طوائف (الی قولہٖ)القائلون بانہ لایقدر علی الجہل والکذب والظلم (الی قولہٖ) والجواب لانسلم قبح الشئی بالنسبۃ الیہ (الی قولہٖ) ولوسلم فالقدرۃ علیہ لاتنافی امتناع صدورہ عنہ نظراً الی وجود الصارف وعدم الداعی وان کان ممکنا۔

(شرح مقاصد، ص۳/۷۵، الفصل الثالث فی الصفات الوجودیۃ)

ان عدم الوجوب مع الوقوع لایستلزم خلفاً ولاکذباً لایقال انہ یستلزم جواز ہما وہو ایضاً محال لانا نقول استحالتہ ممنوعۃ کیف وہما من الممکنات التی تشتملہا قدرتہ تعالیٰ

(شرح المواقف، ص۸/۷۲، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت)۔ التفسیر الکبیر ج۲؍ص۱۷؍ ج۳؍ص۴۷۰؍ ج۴؍ص۱۱۵؍ ج۶؍ص۳۴۹؍ تحت سورہ مائدہ)

ہل یجوز الخلف فی الوعید فظاہر مافی المواقف والمقاصد ان الاشاعرۃ قائلون بجوازہ شامی کراچی ج۱؍ص۵۲۲؍ والا شبہ ترجح جواز الخلف فی الوعید …………

(شامی :ج۱؍ص۵۲۳؍ باب صفۃ الصلاۃ، مطلب فی خلف الوعید )  

واللہ اعلم بالصواب

Question ID: 206 Category: Beliefs
یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالی سے جھوٹ صادر ہو سکتا ہے

کیا آپ مندرجہ ذیل میں دئیے گئے حوالہ جات کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔

کیا یہ عقیدہ رکھا جانا صحیح ہے کہ اللہ کہ پاس جھوٹ بولنے کی قوت تو ہے، لیکن وہ جھوٹ نہیں بولے گا(جیسا کہ دارالافتاء برمنگھم کے مندرجہ ذیل منسلک لنک اور تفسیر رحیمی میں بیان ہے)؟

Darul Ifta Birmingham

http://daruliftabirmingham.co.uk/do-the-scholars-of-deoband-believe-that-allah-can-lie

 Tafseer Raheemi

http://www.tafseer-raheemi.com/q630-do-ulemae-deoband-believe-that-allah-lies

شکریہ

الجواب وباللہ التوفیق

اصلا یہ مسئلہ علمی مسئلہ ہے،عوام کے سامنے اس طرح کی گفتگوان کو دھوکہ دینے اور علماء حق سے بدظن ومتنفر کرنے کے سوا کچھ نہیں، سوال میں جو بات پوچھی گئی ہے اصلا وہ محل نزاع نہیں ہے،بلکہ اصل مسئلہ

حق سبحانہ وتعالیٰ کی قدرت کی توسیع کا ہے، اس کاعنوان بگاڑ کرلوگوں کے سامنے وحشت ونفرت پھیلانے کے لئے یہ تعبیر استعمال کی جاتی ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہےکہ کیا اللہ تعالیٰ کافر اور مشرک کو جنت میں بھیج سکتے ہیں یا نہیں،ظاہر ہے کہ یہ اللہ کی قدرت میں ہے کہ اگر وہ کافرین کو جنت میں بھیجنا چاہیں تو بھیج دیں ،، لیکن بھیجیں گے نہیں۔کیونکہ ہمارا عقیدہ ہےکہ حق تعالیٰ اپنے وعدے میں صادق اور سچے ہیں اور اپنے وعدوں کی وہ مخالفت نہیں کریں گے۔اور اللہ سے زیادہ سچی بات کسی اور کی نہیں ہوسکتی۔’’ومن اصدق من اللّٰہ قیلا()جھوٹ سے اور شائبۂ جھوٹ سے اللہ تعالیٰ پاک اور مبرا ہیں،جو حق تعالیٰ کو جھوٹ سے متصف کرے وہ کافر ہے۔

اب یہ سوال پیدا ہواکہ جب حق تعالیٰ کو قدرت ہے کہ کسی کافر کو جنت میں بھیج دیں توحق تعالیٰ کےاپنے وعید کی مخالفت کا امکان اور باری تعالیٰ کی طرف جھوٹ کی نسبت کا امکان پیدا ہوا۔اس پر پھرعلماء نے بحث کی ،اور متقدمین میں بھی یہ مسئلہ زیر بحث رہا، وراس مسئلہ کی تفصیل شرح مقاصد ، شرح مواقف، تفسیر کبیر ، جہد المقل اور المہند وغیرہ میں موجود ہے ۔ علامہ شامی ؒ نے ابھی س پر مفصل کلام کیا ہے،اور راجح یہی بات کہی ہےکہ جھوٹ پر باریٰ تعالیٰ کو قدرت ہے۔لیکن حق تعالیٰ   اس سے منزہ اور مبرا ہے۔

کیونکہ قرآن پاک میں ہے: (انَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہیں“ پس کذب بھی باری تعالیٰ کی قدرت کے تحت داخل ہے، وہ اس سے عاجز بے بس نہیں ہیں، اگر قدرت نہ ہو تو حق تعالیٰ صدق پر مجبور ہوں گے، اور عجز و مجبوری اللہ کی ذات سے بہت بعید ہے۔ غرض ایک ہے کسی چیز کا قبیح اور برا ہونا،اور ایک ہے قبیح چیز کا کسی سے صادر ہونا ،قبیح چیز کا صدور برا ہے لیکن قبیح پر قدرت کا ہونا برا نہیں ہے،حق تعالیٰ اس پر قادر ضرور ہیں لیکن وہ حق تعالیٰ سے نہ صادر ہوا ہے اور نہ ہوگا۔اور کسی چیز پر قدرت کی وجہ سے کسی کااس سے متصف ہونا بھی لازم نہیں آتا۔

مندرجہ بالا مسئلہ کے چند عربی حوالے ملاحظہ فرمائیں۔

من یعتقد ویتفوہ بانہ تعالیٰ یکذب فہو کافر ملعون قطعاً ومخالف الکتاب والسنۃ واجماع الامۃ

(فتاویٰ رشید یہ ص۲۰۸، کتاب العقائد)

ان اللہ منزہ من ان یتصف بصفۃ الکذب ، ولیست فی کلامہ شائبۃ الکذب أبدا کما قال اللہ تعالیٰ : ’’ومن اصدق من اللہ قیلا

( المہند علی لمفند : ۵۴ / دارالاشاعت)

إن أمثال ھذہ الأشیاء مقدور قطعاً لکنہ غیر جائز الوقوع عند أھل السنة والجماعة من الأشاعرة

(المھند علی المفند: ص۵۹)

إن اللہ تعالی منزّہ من أن یتصف بصفة الکذب ولیست في کلامہ شائبة الکذب أبدا کما قال اللہ تعالی: وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیْلاً

(المھند علی المفند: ص۵۵)

المنکرون لشمول قدرتہ طوائف (الی قولہٖ)القائلون بانہ لایقدر علی الجہل والکذب والظلم (الی قولہٖ) والجواب لانسلم قبح الشئی بالنسبۃ الیہ (الی قولہٖ) ولوسلم فالقدرۃ علیہ لاتنافی امتناع صدورہ عنہ نظراً الی وجود الصارف وعدم الداعی وان کان ممکنا۔

(شرح مقاصد، ص۳/۷۵، الفصل الثالث فی الصفات الوجودیۃ)

ان عدم الوجوب مع الوقوع لایستلزم خلفاً ولاکذباً لایقال انہ یستلزم جواز ہما وہو ایضاً محال لانا نقول استحالتہ ممنوعۃ کیف وہما من الممکنات التی تشتملہا قدرتہ تعالیٰ

(شرح المواقف، ص۸/۷۲، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت)۔ التفسیر الکبیر ج۲؍ص۱۷؍ ج۳؍ص۴۷۰؍ ج۴؍ص۱۱۵؍ ج۶؍ص۳۴۹؍ تحت سورہ مائدہ)

ہل یجوز الخلف فی الوعید فظاہر مافی المواقف والمقاصد ان الاشاعرۃ قائلون بجوازہ شامی کراچی ج۱؍ص۵۲۲؍ والا شبہ ترجح جواز الخلف فی الوعید …………

(شامی :ج۱؍ص۵۲۳؍ باب صفۃ الصلاۃ، مطلب فی خلف الوعید )

فقط واللہ اعلم بالصواب