Thursday | 28 March 2024 | 17 Ramadhan 1445

Fatwa Answer

Question ID: 494 Category: Social Matters
Inheritance

Assalamualaikum,

1) I have been the major contributor in my family and has paid the mortgage for our current house in Canada. Who would be the owner of this property as per Sharia law?

2)If I write my will, how will the distribution be for my husband and two daughters. My parents both Dad and mom are alive.

3)How would the distribution be for my husband, if he writes a will? His mom is alive. We have two daughters who are above 18 and married.

 Jazakallah

الجواب وباللہ التوفیق

  • In the situation inquired about if the amount you have paid is with the intention of partnership then you will be partner in proportion to the amount you have paid. And if you have given with the intention of cooperation then this house in its origin will belong to your husband and your spending this money will be احسان Ihsaan (a favor). Similarly if you have paid off the husband’s loan with the intention of giving him a loan then if would be necessary on the husband to pay it back to you. And if you have given with the intention of ہبہ Hibah (a gift) then this will be your احسان Ihsaan (a favor).

        Hence, the person to whom the house belongs to, he/she will have full اختیار (choice/authority) of its تصرف (usage/disposal). In his life he/she can give it to whosoever he/she likes.

  • However, it is not permissible to write a will for the heirs. Even if a will is written, after the demise of the person it would be necessary to have the Shara’i distribution of his/her assets. Therefore, neither you can make a will for your husband and children nor your husband can for you. If you both actually want to give to each other then gift the property to the persons you want to give and make them full owners of the property in the presence of the witnesses.

عن شرحبیل بن مسلم الخولاني رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت أبا أمامۃ، قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: ’’إن اللّٰہ قد أعطی کل ذي حق حقہ، فلا وصیۃ لوارث‘‘۔ (سنن أبي داؤد، کتاب الوصایا / باب ما جاء في الوصیۃ للوارث،رقم: ۲۸۷۰)

الہبۃ والصدقۃ ہي التبرع بما ینتفع الموہوب بہ، لغۃ: وتملیک العین بلا عوض شریعۃ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۱۴؍۴۱۲ رقم: ۲۱۵۳۵ زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

Question ID: 494 Category: Social Matters
وراثت

(۱)میں اپنے گھرانے میں سب سے زیادہ مالی حصہ فراہم کرنے والی رہی ہوں اور کینیڈا میں ہمارے حالیہ گھر کی قیمت کی ماہانہ، سالانہ ادائیگی  میں نے کی ہے، شرعی قانون کے مطابق اس جائیداد کا مالک کون ہوگا؟

۲)اگر میں وصیت لکھتی ہوں تو میرے خاوند اور میری دو بیٹیوں کے درمیان وراثت کی تقسیم کیسے ہوگی؟ میرے  والدین حیات  ہیں ۔

۳)اگر میرے خاوند وصیت لکھتے ہیں تو ان کے لیے وراثت کی تقسیم کیسے ہوگی؟ ان کی والدہ حیات  ہیں ہماری دو بیٹیاں ہیں جو ۱۸ سال سے اوپر اور شادی شدہ ہیں۔

گھر ہم دونوں یعنی میرے اور میرے خاوند کے نام ہے۔ ہم نے یہ گھر ۲۰۱۳ء میں خریدا تھا۔

ہم نے  بیعانے کے طور پر تیس ہزار  ڈالر ادا کیے تھے، یہ رقم میرے خاوند کو انڈیا سے پچھلی ملازمت چھوڑنے پر  ملی تھی، لیکن اس کے بعد میں اس سال اپریل تک گھر کی ماہانہ قسطیں ادا کرتی آئی ہوں، اپریل کے بعد سے اب تک گھر کی ماہانہ قسطیں  گھر کی بیسمنٹ(تہ خانے) کے کرائے اور میری جز وقتی ملازمت اور ملازمت کی انشورینس سے ادا ہوتی ہیں۔

 گھر ہم دونوں کے نام ہے۔

میرے خاوند اپنی وصیت میں مجھے مالک لکھنا چاہتے ہیں اور میں اپنی وصیت  میں میرے خاوند اور بچوں کو مالک لکھنا چاہتی ہوں۔

ایک اور بات یہ ہے کہ میرے خاوند نے اس گھر کے اوپر قرض لے کر اپنے بزنس میں لگایا لیکن انہیں اس میں تیس سے پینتیس ہزار کا نقصان ہوا میں نے ابھی حال ہی میں اس قرضے کو اپنی بچائی ہوئی رقم سے ادا کیا۔

جزاک اللہ

الجواب وباللہ التوفیق

صورت مسئولہ میں آپ کی طرف سے دی جانے والی رقم اگر شرکت کی نیت سے ہوتو آپ اس میں اپنی رقم کے بقدر   شریک رہیں گی،اور اگر تعاون کی نیت سے دئے  ہیں تو وہ مکان اصلا شوہر کا ہوگا،اور اس رقم کا خرچ کرنا آپ کی طرف سے احسان ہوگا۔ اسی طرح شوہر کےقرض کی ادائیگی بھی  اگر آپ نے قرض کی نیت سے  کی ہے تو شوہر پر ضروری ہوگاکہ اس کو ادا کرے،اور اگر ہبہ کی نیت سے دیاہےتو یہ آپ کا احسان ہوگا۔

غرض جس کا بھی مکان ہواس کو اپنے مکان میں تصرف کا پورا اختیار ہوگا،وہ اپنی زندگی میں جس کو چاہے دے سکتا ہے۔

(۲)لیکن وارثین کے لئے وصیت لکھنا جائز نہیں ہے،اگر لکھی بھی جائے تو انتقال کے بعد شرعی اعتبار سے اس کی تقسیم ضروری ہوگی۔اس لئے آپ اپنےخاوند اور بچوں کے لئے نہ وصیت کرسکتے ہیں اور نہ آپ کے شوہر۔اگر آپ لوگ ایک دوسرے کو دینا ہی چاہتے ہیں تو اس کی شکل یہ ہےکہ جن کو دینا چاہ رہے ہیں  زندگی ہی میں ان کو ہبہ کرکے مکمل مالک بنادیاجائے۔اور اس پر گواہ بھی بنالئے جائیں۔

عن شرحبیل بن مسلم الخولاني رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت أبا أمامۃ، قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: ’’إن اللّٰہ قد أعطی کل ذي حق حقہ، فلا وصیۃ لوارث‘‘۔ (سنن أبي داؤد، کتاب الوصایا / باب ما جاء في الوصیۃ للوارث،رقم: ۲۸۷۰)

الہبۃ والصدقۃ ہي التبرع بما ینتفع الموہوب بہ، لغۃ: وتملیک العین بلا عوض شریعۃ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۱۴؍۴۱۲ رقم: ۲۱۵۳۵ زکریا)

واللہ اعلم بالصواب