Tuesday | 16 April 2024 | 7 Shawaal 1445

Fatwa Answer

Question ID: 55 Category: Permissible and Impermissible
Smoking Cigarettes

Assalamualaikum Warahmatullah

Respected Mufti, is smoking cigarettes considered haram? What will be the ruling about a husband who before the marriage said he does not smoke but afterwards it was found out that he does actually smoke? JazakAllah Khair for your response.

Walaikumassalam Warahmatullah

الجواب وباللہ التوفیق

Smoking cigarette by itself, even if it does not contain any intoxicating substance, due to the strength of tobacco in it there is an effect of lightheadedness, its smell is extremely painful for others, it is a waste of money, and according to the modern medical research it has injurious effects on the smoker’s own health. Due to these reasons, some ulamah kiram have rendered its use as haram whereas others have considered it as makrooh-e-tehreemi (a clear cut  prohibition, but the proof is dhanni). There is Shar‘ai provision for its permissibility to use, if it is being used as part of medical treatment.

''اعلم ان شرب الدخان التنباک لم یکن فی زمن النبی ۖ ولافی زمن الصحابة ولافی زمن من بعدہم وانماحدث بعدالالف من الہجرة ولذلک تری کتب السلف ساکتة عن حکمہ وقداختلف الخلف فی حلہ وحرمتہ فمنہم کالفاضل الشرنبلالی والشیخ ابراہیم القانی المتوفی سنة ١٠٤١ ، احدی واربعین بعدالالف فی رسالتہ نصیحة الاخوان باجتناب الدخان وغیرہما من افتی بتحریمہ ومنہم من افتی بتحلیلہ والیہ مال العلامة الحموی والحق انہ ان شرب بحیث اسکر اواضرہ فحرام والا فلاوجہ لتحریمہ نعم لایخلوعن کراہتہ''…

(رسائل اللکھنوی:٣٢٠/٢)

الاستشفاء بالمحرم إنما لا یجوز إذا لم یعلم أن فیہ شفائً، أما إذا علم أن فیہ شفائً، ولیس لہ دواء آخر غیرہ، فیجوز الاستشفاء بہ۔ (المحیط البرہاني، کتاب الاستحسان / الفصل التاسع عشر في التداوي ۶؍۱۱۶ المکتبۃ الغفاریۃ کوئٹہ، ۸؍۸۲ بیروت، وکذا في رد المحتار، کتاب الطہارۃ / مطلب في التداوي بالمحرم ۱؍۲۱۰ کراچی، ۱؍۳۶۰ زکریا)

ومن أکل ما یتأذیٰ بہ: أي برائحتہ کثوم وبصل، ویؤخذ منہ أنہ لو تأذی من رائحۃ الدخان المشہور لہ منعہا من شربہ۔

(الدر المختار مع الشامي، کتاب النکاح / قبیل باب الرضاع ۳؍۲۰۸ کراچی، ۴؍۳۸۸ زکریا)

ہٰذا تصریح بإباحۃ الثوم وہو مجمعٌ علیہ، لکن یکرہ لمن أراد حضور المسجد وحضور جمع في غیر المسجد … ویلحق بالثوم کل ما لَہ رائحۃٌ کریہۃٌ من البصل والکراث ونحوہما۔ (إنجاح الحاجۃ علی ہامش ابن ماجۃ، کتاب الأطعمۃ / باب أکل الثوم ۲۴۱، وکذا في شرح النووي علی صحیح مسلم، کتاب المساجد / باب نہی من أکل ثومًا أو بصلاً … عن حضور المسجد ۱؍۲۰۹)

(۱) ما في ’’ الأحکام الفقہیۃ المتعلقۃ بالتدخین ‘‘ : فأفتی الجمہور الأعظم بالتحریم ، وأفتی بعضہم بالکراہۃ ، وذہب آحاد منہم إلی حلہ ، وذہب القلیل إلی أنہ تجري علیہ الأحکام الخمسۃ : فہو حرام إذا تحقق ضررہ ، ومکروہ لرائحتہ ، أو کان ضررہ قلیلا محتملا ، أو لکونہ مما اختلف فیہ ، ومندوب إذا کان لہ فائدۃ مرجوۃ کالمداواۃ مثلا ، ومباح إذا استوی حال متعاطیہ شرب أو لم یشرب ، وواجب إذا تعین دواء وأخبرہ بذلک طبیب عادل ۔ (ص/۴۸ ، المطب الثامن حکم شرب الدخان ، المرحلۃ الثانیۃ)

فقط واللہ اعلم بالصواب

Question ID: 55 Category: Permissible and Impermissible
سگریٹ پینے کا حکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ عزت مآب مفتی صاحب

کیا سگریٹ پینا حرام ہے؟ ایسے شخص کا کیا حکم ہو گا جس نے شادی سے قبل یہ کہا تھا کہ وہ سگریٹ نہیں پیتا لیکن شادی کے بعد معلوم ہوا کہ وہ سگریٹ پیتا ہے۔ جزاک اللہ خیرا ۔

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

الجواب وباللہ التوفیق

مطلقًا سگریٹ نوشی ؛ اگر اس میں کسی قسم کی نشہ آور چیز کی آمیزش نہ بھی ہو تب بھی چونکہ اُس میں تیزی کی وجہ سے کبھی کبھی سر چکرانے لگتا ہے، اور پھر اس کی بدبو دوسروں کے لئے اَذیت ناک ہوتی ہے، ا ور اس کا استعمال مال کا ضیاع ہے، اور جدید تحقیق کے مطابق خود انسانی صحت کے لئے وہ انتہائی مضر ہے، اور بعض علماء نے اسی بناء پرحرام اور بعض نےمکروہ تحریمی قراردیا ہے۔اِس لئے شوقیہ طور پر اِس کا استعمال کرنا مکروہ ہے، ہاں اگر کوئی شخص کسی بیماری سے علاج کے لئے اسے استعمال کرے تو شرعاً اِس کی گنجائش ہے۔

''اعلم ان شرب الدخان التنباک لم یکن فی زمن النبی ۖ ولافی زمن الصحابة ولافی زمن من بعدہم وانماحدث بعدالالف من الہجرة ولذلک تری کتب السلف ساکتة عن حکمہ وقداختلف الخلف فی حلہ وحرمتہ فمنہم کالفاضل الشرنبلالی والشیخ ابراہیم القانی المتوفی سنة ١٠٤١ ، احدی واربعین بعدالالف فی رسالتہ نصیحة الاخوان باجتناب الدخان وغیرہما من افتی بتحریمہ ومنہم من افتی بتحلیلہ والیہ مال العلامة الحموی والحق انہ ان شرب بحیث اسکر اواضرہ فحرام والا فلاوجہ لتحریمہ نعم لایخلوعن کراہتہ''…

(رسائل اللکھنوی:٣٢٠/٢)

الاستشفاء بالمحرم إنما لا یجوز إذا لم یعلم أن فیہ شفائً، أما إذا علم أن فیہ شفائً، ولیس لہ دواء آخر غیرہ، فیجوز الاستشفاء بہ۔ (المحیط البرہاني، کتاب الاستحسان / الفصل التاسع عشر في التداوي ۶؍۱۱۶ المکتبۃ الغفاریۃ کوئٹہ، ۸؍۸۲ بیروت، وکذا في رد المحتار، کتاب الطہارۃ / مطلب في التداوي بالمحرم ۱؍۲۱۰ کراچی، ۱؍۳۶۰ زکریا)

ومن أکل ما یتأذیٰ بہ: أي برائحتہ کثوم وبصل، ویؤخذ منہ أنہ لو تأذی من رائحۃ الدخان المشہور لہ منعہا من شربہ۔

(الدر المختار مع الشامي، کتاب النکاح / قبیل باب الرضاع ۳؍۲۰۸ کراچی، ۴؍۳۸۸ زکریا)

ہٰذا تصریح بإباحۃ الثوم وہو مجمعٌ علیہ، لکن یکرہ لمن أراد حضور المسجد وحضور جمع في غیر المسجد … ویلحق بالثوم کل ما لَہ رائحۃٌ کریہۃٌ من البصل والکراث ونحوہما۔ (إنجاح الحاجۃ علی ہامش ابن ماجۃ، کتاب الأطعمۃ / باب أکل الثوم ۲۴۱، وکذا في شرح النووي علی صحیح مسلم، کتاب المساجد / باب نہی من أکل ثومًا أو بصلاً … عن حضور المسجد ۱؍۲۰۹)

(۱) ما في ’’ الأحکام الفقہیۃ المتعلقۃ بالتدخین ‘‘ : فأفتی الجمہور الأعظم بالتحریم ، وأفتی بعضہم بالکراہۃ ، وذہب آحاد منہم إلی حلہ ، وذہب القلیل إلی أنہ تجري علیہ الأحکام الخمسۃ : فہو حرام إذا تحقق ضررہ ، ومکروہ لرائحتہ ، أو کان ضررہ قلیلا محتملا ، أو لکونہ مما اختلف فیہ ، ومندوب إذا کان لہ فائدۃ مرجوۃ کالمداواۃ مثلا ، ومباح إذا استوی حال متعاطیہ شرب أو لم یشرب ، وواجب إذا تعین دواء وأخبرہ بذلک طبیب عادل ۔ (ص/۴۸ ، المطب الثامن حکم شرب الدخان ، المرحلۃ الثانیۃ)

فقط واللہ اعلم بالصواب