Thursday | 28 March 2024 | 17 Ramadhan 1445

Fatwa Answer

Question ID: 72 Category: Dealings and Transactions
Affection from Paternal Grandfather

Assalamualaikum Warahmatullah

My paternal grandfather showers a lot of love on me, he says that “you are the only grandchild on whom I can rely.”

Recently I noticed that he has started kissing me on my lips only when he finds me alone for example I was washing my hands just before lunch. I found out later that he did similar actions with my aunt (his daughter in law) and would tell her that she is like a daughter to him.

I don't know how I should stop this behavior. If I don't visit them then my grandmother calls me over. Recently when my grandmother asked me to stay with them, I refused due to my grandfather’s behavior.

When everyone is around he just kisses me on my forehead but when my grandmother is in the kitchen and no one is around he just holds me tightly and kisses me. I have tried to run away but he caught me. When this happened today, I told my mother, and that this has been happening for some time now, she said she can't tell him directly out of shame and if she tells my grandmother she will not accept or believe it.

I do not know how I should react to this situation. Please guide me.

 الجواب و باللہ التوفیق

Assalamualaikum Warahmatullah

As per the situation described in your question, it is incumbent upon you to stay away from your grandfather and diminish any possibilities of contact with him. Try to refrain from every chance, which can lead to you and him being alone. If meeting him is necessary then you should meet him in complete purdah and from a reasonable physical distance. In addition, due to your grandfather’s actions, your grandmother has become haram upon him, it is impermissible for them to live together and repentance and asking for forgiveness from Allah Subhanahu Wa Ta‘ala is also a must in this situation. You should involve the elders of your family to bring this issue to light. As far as the issue pertaining your aunt is concerned, any relationship of the sort mentioned in your question between your grandfather and aunt is extremely dangerous and can lead to absolute separation and severing of relationship between your uncle and aunt. You should immediately inform your uncle about this as well and bring his attention to this matter. Finally, for further details of the issue pertaining to your aunty, provide a detailed written account in order to receive an exact Shar‘ai ruling in their matter.

من مستہ امرأۃ بشہوۃ حرمت علیہ أمہا وبنتہا، وقال الشافعي: لا تحرم، وعلی ہٰذا الخلاف مسہ امرأۃ بشہوۃ ونظرہ إلی فرجہا۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۴؍۵۷ رقم: ۵۵۱۸ زکریا)وحرم أیضاً بالصہریۃ … أصل ممسوسۃ بشہوۃ ولو بشعر علی الرأس … وفروعہن مطلقاً۔ (الدر المختار ۴؍۱۰۷-۱۰۸)

ثم المس إنما یوجب حرمۃ المصاہرۃ إذا لم یکن بینہما ثوب، أما إذا کان بینہما ثوب، فإن کان صفیقًا لا یجد الماس حرارۃ الممسوس لا تثبت حرمۃ المصاہرۃ، وإن انتشرت آلتہ بذٰلک، وإن کان رفیقا بحیث تصل حرارۃ الممسوس إلی یدہ تثبت کذا في الذخیرۃ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ / القسم الثاني المحرمات بالصہریۃ ۱؍۲۷۴ زکریا)

وانصرف اللمس إلی أي موضع من البدن بغیر حائل، وأما إذا کان بحائل، فإن وصلت حرارۃ البدن إلی یدہ تثبت الحرمۃ وإلا فلا، کذا في أکثر الکتب۔ فما في الذخیرۃ من أن الشیخ الإمام ظہیر الدین یفتی بالحرمۃ في القبلۃ علی الفم والذقن والخد والرأس، وإن کان علی المقنعۃ محمول علی ما إذا کانت المقنعۃ رقیقۃ تصل الحرارۃ معہا کما قدمناہ۔ (البحر الرائق / فصل في المحرمات ۳؍۱۷۷ زکریا)

وفیہ أیضا (۳۶/۳) :لو مس أو قبل وقال لم أشته صدق إلا إذا كان المس على الفرج والتقبيل في الفم اھ وهذا هو الموافق لما سينقله الشارح عن الحدادي ولما نقله عنه في البحر قائلا ورجحه في فتح القدير وألحق الخد بالفم اھ۔

فقط واللہ اعلم بالصواب

Question ID: 72 Category: Dealings and Transactions
نانا کی طرف سے رغبت اور بے جا پیار کا اظہار

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

میرے نانا مجھ پر بہت پیار نچھاور کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "تم میری وہ نواسی ہو جس پر میں بھروسہ کر سکتا ہوں۔"

حال ہی میں میں نے غور کیا ہے کہ جب وہ مجھے اکیلا پاتے ہیں تو مجھے میرے ہونٹوں پر پیار کرتے ہیں مثلا میں کھانے سے قبل ہاتھ دھو رہی تھی تب۔ مجھے یہ معلوم ہوا کہ میرے نانا نے میری مامی کے ساتھ بھی ایسا کیا ہے اور ان سے یہ کہتے تھے کہ وہ ان کی بیٹیوں کی جگہ پر ہیں۔

مجھے نہیں معلوم کہ ان کے اس رویہ کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔ اگر میں ان کے گھر نہ جاؤں تو میری نانی مجھے کال کر کے بلا لیتی ہیں۔ حال میں جب میری نانی نے مجھے کال کر کے بلایا تو میں نے وہاں جانے سے انکار کر دیا (اپنے نانا کے عمل کو لے کر)۔

جب سب لوگ سامنے ہوتے ہیں تو وہ میرے ماتھے پر پیار کرتے ہیں لیکن جب میری نانی رسوئی میں ہوتی ہیں تو وہ مجھے زور سے بھینچ کر پیار کرتے ہیں۔ میں نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے مجھے پکڑ لیا۔ آج جب یہ ہوا تو میں نے اپنی والدہ سے اس سب کا ذکر کر دیا۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ ان کے باپ ہیں اور شرم سے وہ ان سے ایسی بات نہیں کہہ سکتیں، جب کہ اگر وہ میری نانی سے شکایت کریں گی تو نانی کو اس بات پر یقین نہیں آئے گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس صورت میں اب کیا کرنا چاہئے، براہ کرم میری راہنمائی فرما دیجئے۔

 

 

 

الجواب و باللہ التوفیق

 وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

آپ پر ضروری ہےکہ آپ نانا سے علاحدہ رہیں،اور اپنی ملاقات کم کردیں،ایسا کوئی موقع ہی نہ دیں کہ تنہائی میں وہ اور آپ جمع ہوجائیں،اور اگر ملاقات کی ضرورت ہوتو مکمل پردہ کے ساتھ دور ہی سے ملاقات کریں،لیکن نانا کی اس حرکت کی وجہ سے آپ کی نانی نانا پر حرام ہوچکی ہیں،ان دونوں کا ساتھ رہنا اب جائز نہیں ہے،اس سے توبہ واستغفار بھی ضروری ہے،اور گھر کے بڑوں کے ذریعہ نانی کے سامنے یہ بات رکھیں، اور رہا ممانی کا مسئلہ تونانا کا ان کے ساتھ تعلق بھی انتہائی خطرناک ہے ،اور یہ شرعی اعتبار سےماموں اور ان کی اہلیہ کے درمیان ہمیشہ کے لئے رشتہ ختم ہونے کا سبب بن سکتا ہے، فورا ہی آپ ماموں کو اس کی اطلاع دیں،اور اس پرتوجہ دلائیں۔اور اس کی تفصیل لکھ کر شرعی اعتبار سے ان کامسئلہ بھی معلوم کرلیں۔

من مستہ امرأۃ بشہوۃ حرمت علیہ أمہا وبنتہا، وقال الشافعي: لا تحرم، وعلی ہٰذا الخلاف مسہ امرأۃ بشہوۃ ونظرہ إلی فرجہا۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۴؍۵۷ رقم: ۵۵۱۸ زکریا)وحرم أیضاً بالصہریۃ … أصل ممسوسۃ بشہوۃ ولو بشعر علی الرأس … وفروعہن مطلقاً۔ (الدر المختار ۴؍۱۰۷-۱۰۸)

ثم المس إنما یوجب حرمۃ المصاہرۃ إذا لم یکن بینہما ثوب، أما إذا کان بینہما ثوب، فإن کان صفیقًا لا یجد الماس حرارۃ الممسوس لا تثبت حرمۃ المصاہرۃ، وإن انتشرت آلتہ بذٰلک، وإن کان رفیقا بحیث تصل حرارۃ الممسوس إلی یدہ تثبت کذا في الذخیرۃ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ / القسم الثاني المحرمات بالصہریۃ ۱؍۲۷۴ زکریا)

وانصرف اللمس إلی أي موضع من البدن بغیر حائل، وأما إذا کان بحائل، فإن وصلت حرارۃ البدن إلی یدہ تثبت الحرمۃ وإلا فلا، کذا في أکثر الکتب۔ فما في الذخیرۃ من أن الشیخ الإمام ظہیر الدین یفتی بالحرمۃ في القبلۃ علی الفم والذقن والخد والرأس، وإن کان علی المقنعۃ محمول علی ما إذا کانت المقنعۃ رقیقۃ تصل الحرارۃ معہا کما قدمناہ۔ (البحر الرائق / فصل في المحرمات ۳؍۱۷۷ زکریا)

وفیہ أیضا (۳۶/۳) :لو مس أو قبل وقال لم أشته صدق إلا إذا كان المس على الفرج والتقبيل في الفم اھ وهذا هو الموافق لما سينقله الشارح عن الحدادي ولما نقله عنه في البحر قائلا ورجحه في فتح القدير وألحق الخد بالفم اھ۔

فقط واللہ اعلم بالصواب