Friday | 19 April 2024 | 10 Shawaal 1445

Fatwa Answer

Question ID: 986 Category: Worship
What is the ruling to wear A'mamah in Salat for Imam

Assalamualaikum, 

What is the ruling for A'mamah (Turban) during Salat? What kind of Sunnat it is? Is it Sunnat Muakkadah or not, and is there any difference for Imam or Muqtadi or both have same ruling? Please guide us in detail about wearing A'mamah in Salat here in America. May Allah give you reward. 

 

الجواب وباللہ التوفیق

According to the explanations of the فقہا ءکرام (Jurists) it is مستحب (preferred) to wear an عمامہ (A’mamah, Turban). The عمامہ (A’mamah, Turban) is not only for the Imam rather the Imam and the followers are equally included in its ruling and to lead Salah while wearing the عمامہ (A’mamah, Turban) is اولیٰ  (better) and مستحب (preferred). Rasool ﷺ leading Salat without the عمامہ (A’mamah, Turban) is also proven. It is not مکروہ (Makrooh) to lead Salat without the عمامہ (A’mamah, Turban). To follow the Sunnat of Nabi ﷺ carries the same فضیلت (virtue) everywhere, no matter it is America or any other country.

۔’’کانت عمامتہ علیہ السلام فی اکثر الاحیان ثلثۃ اذرع شرعیۃ وفی الصلوات الخمس سبعۃ اذرع وفی الجمع والاعیاد اثنا عشر ذراعاً (العرف الشذی )‘‘’’عن جعفر بن عمروبن حریث قال رأیت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علیٰ المنبر یخطب وعلیہ عمامۃ سوداء فیہ الاستحباب لمن ارادالجمعۃ ان یعتم ویرتدی وللامام اٰکد۔بذل المجہود ۔ ‘‘’’عن محمد بن المنکدر قال رأیت جابربن عبداللّٰہ یصلی فی ثوب واحد وقال رأیت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلی فی ثوب واحد، بخاری شریف۔۳؂’’کان الخلاف فی منع جواز الصلوٰۃ فی الثوب الواحد قدیماً ثم استقرالامر علیٰ الجواز ۔ فتح الباری،مختصراً ؂ ‘‘’’والغرض بیان جواز الصلوٰۃ فی الثوب الواحد ولوکانت الصلوٰۃ فی الثوبین افضل ۔ فتح الباری   ’’والمستحب ان یصلی الرجل فی ثلثۃ اثواب قمیص وازار وعمامۃ اما لو صلی فی ثوب واحد متوشحابہ جمیع بدنہ کازار المیت تجوز صلوٰتہ من غیر کراہۃ کبیری ‘‘’’وقد سئلت غیرمرۃ عن الصلوٰۃ بغیر عما مۃ ہل تکرہ کماہو المشہور بین العوام فتجسستہ فی کتب الفقہ فلم اجد سویٰ قولہم ،المستحب ان یصلی فی ثلثۃ اثواب ازاروقمیص وعمامۃ وہولا یدل علیٰ کراہۃ الصحۃ بدونہا کماحررہ بعض علماء عصرنا ظاناًان ترک المستحب مکروہ وذٰلک لانہ قد صرح فی البحر وغیرہ ان ترک المستحب لاتلزم منہ الکراہۃ مالم یقم دلیل خارجی علیہ وقد یستدل علیٰ الکراہۃ فیما نحن فیہ بان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم واظب علیٰ الصلوٰۃ مع العمامۃفانہ یعلم من الاخبار انہ کان یضع العمامۃ علیٰ رأسہ دائما لاسیما فی الصلوٰۃ نعم کا ن یضعہا بین یدیہ فی بیتہ والمواظبۃ دلیل السنیۃ وخلاف السنۃ مکروہ وفیہ ان المواظبۃ النبویۃ التی ہی دلیل السنیۃ انما ہی المواظبۃ فی باب العبادات دون العادات کمافی شرح الوقایۃ وغیرہ ومواظبتہ علی العمامۃ من قبیل الثانی فلایکون ترکہ مکروہا،نعم یکون الاولی الاقتداء بہ وافادالوالدالعلام فی بعض تحریراتہ انہ تکرہ الصلوٰۃ بدونہا فی البلاد التی عادۃ سکانہا لایذہبون الی الکبراء بدون العمامۃ (نفع المفتی والسائل،ص ۷۰ ؂ ) ومن اصرعلیٰ امر مندوب وجعلہ عزما ولم یعمل بالرخصۃ فقد اصاب منہ الشیطان عن الاضلال فکیف من اصر علی بدعۃ اومنکر وجاء فی حدیث ابن مسعودؓ ان اللّٰہ یحب ان توتیٰ رخصہ کمایحب ان توتیٰ عزائمہ ۱ھ۲؂  سعایۃ‘‘’’الاصرار علیٰ الامر المندوب یبلغہ الیٰ حدالکراہۃ ‘‘(بحوالہ فتاوی محمودیہ) ۔

واللہ اعلم بالصواب

Question ID: 986 Category: Worship
نماز میں عمامہ پہننے کا حکم

السلام علیکم

نماز میں عمامہ کا کیا حٰکم ہے؟ یہ سنت کی کونسی قسم ہے؟ کیا یہ سنت موکدہ ہے یا نہیں؟ کیا امام کے لیے اور مقتدی کے لیے حکم مختلف ہے  یا دونوں کے لیے ایک ہی حکم ہے؟ برائے مہربانی یہاں امریکہ میں نماز میں عمامہ پہننے کے بارے میں تفصیلی رہنمائی فرمائیے۔

جزاک اللہ

 الجواب وباللہ التوفیق

فقہا ءکرام کی تصریحات کے مطابق عمامہ پہننا مستحب ہے ،عمامہ صرف امام ہی کیلئے نہیں بلکہ امام اور مقتدی سب اس کے حکم میں برابر شامل ہیں اور اُسے باندھ کر نماز پڑھانا اولیٰ اور مستحب ہے ، حضور پاک ﷺ سے بغیر عمامہ کے بھی نماز ثابت ہے،عمامہ پہنے  بغیر نماز مکروہ  نہیں ہے ،امریکہ ہو یا کوئی اور ملک، اتباع سنت نبوی کا حکم سب جگہ یکساں فضیلت رکھتا ہے ۔

۔’’کانت عمامتہ علیہ السلام فی اکثر الاحیان ثلثۃ اذرع شرعیۃ وفی الصلوات الخمس سبعۃ اذرع وفی الجمع والاعیاد اثنا عشر ذراعاً (العرف الشذی )‘‘’’عن جعفر بن عمروبن حریث قال رأیت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علیٰ المنبر یخطب وعلیہ عمامۃ سوداء فیہ الاستحباب لمن ارادالجمعۃ ان یعتم ویرتدی وللامام اٰکد۔بذل المجہود ۔ ‘‘’’عن محمد بن المنکدر قال رأیت جابربن عبداللّٰہ یصلی فی ثوب واحد وقال رأیت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلی فی ثوب واحد، بخاری شریف۔۳؂’’کان الخلاف فی منع جواز الصلوٰۃ فی الثوب الواحد قدیماً ثم استقرالامر علیٰ الجواز ۔ فتح الباری،مختصراً ؂ ‘‘’’والغرض بیان جواز الصلوٰۃ فی الثوب الواحد ولوکانت الصلوٰۃ فی الثوبین افضل ۔ فتح الباری   ’’والمستحب ان یصلی الرجل فی ثلثۃ اثواب قمیص وازار وعمامۃ اما لو صلی فی ثوب واحد متوشحابہ جمیع بدنہ کازار المیت تجوز صلوٰتہ من غیر کراہۃ کبیری ‘‘’’وقد سئلت غیرمرۃ عن الصلوٰۃ بغیر عما مۃ ہل تکرہ کماہو المشہور بین العوام فتجسستہ فی کتب الفقہ فلم اجد سویٰ قولہم ،المستحب ان یصلی فی ثلثۃ اثواب ازاروقمیص وعمامۃ وہولا یدل علیٰ کراہۃ الصحۃ بدونہا کماحررہ بعض علماء عصرنا ظاناًان ترک المستحب مکروہ وذٰلک لانہ قد صرح فی البحر وغیرہ ان ترک المستحب لاتلزم منہ الکراہۃ مالم یقم دلیل خارجی علیہ وقد یستدل علیٰ الکراہۃ فیما نحن فیہ بان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم واظب علیٰ الصلوٰۃ مع العمامۃفانہ یعلم من الاخبار انہ کان یضع العمامۃ علیٰ رأسہ دائما لاسیما فی الصلوٰۃ نعم کا ن یضعہا بین یدیہ فی بیتہ والمواظبۃ دلیل السنیۃ وخلاف السنۃ مکروہ وفیہ ان المواظبۃ النبویۃ التی ہی دلیل السنیۃ انما ہی المواظبۃ فی باب العبادات دون العادات کمافی شرح الوقایۃ وغیرہ ومواظبتہ علی العمامۃ من قبیل الثانی فلایکون ترکہ مکروہا،نعم یکون الاولی الاقتداء بہ وافادالوالدالعلام فی بعض تحریراتہ انہ تکرہ الصلوٰۃ بدونہا فی البلاد التی عادۃ سکانہا لایذہبون الی الکبراء بدون العمامۃ (نفع المفتی والسائل،ص ۷۰ ؂ ) ومن اصرعلیٰ امر مندوب وجعلہ عزما ولم یعمل بالرخصۃ فقد اصاب منہ الشیطان عن الاضلال فکیف من اصر علی بدعۃ اومنکر وجاء فی حدیث ابن مسعودؓ ان اللّٰہ یحب ان توتیٰ رخصہ کمایحب ان توتیٰ عزائمہ ۱ھ۲؂  سعایۃ‘‘’’الاصرار علیٰ الامر المندوب یبلغہ الیٰ حدالکراہۃ ‘‘(بحوالہ فتاوی محمودیہ) ۔

واللہ اعلم بالصواب